معرفہ اور نکرہ میں فرق
فرق:
معرفہ میں مخصوص فرد پر دلالت ہوتی ہے جبکہ نکرہ میں فرد غیر مخصوص پر دلالت ہوتی ہے۔
🔹نکرہ بلا تخصیص مبتداء نہیں بن سکتا لہذا
رَجُلٌ قَائِمٌ
درست نہیں جبکہ
الرَّجُلُ قَائِمٌ
درست ہے۔
🔹نکرہ سے استثناء درست نہیں جبکہ معرفہ سے استثناء درست ہے۔ لہذا۔
جَاءَ رِجَالٌ اِلَّا رَجُلاً
درست نہیں جبکہ
جَاءَ الرِّجَالُ اِلَّا رَجُلاً
کہنا درست ہے۔
اسی وجہ سے
لَوْ کَانَ فِیْھِمَا آلِهَةٌ إلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتا [الانبیاء، ٢٢]
ترجمہ:
اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو ضرور آسمان و زمین تباہ ہو جاتے۔
۔میں إلا استثناء کے لیے نہیں بلکہ غیر کے معنی میں ہے۔
🔹نکرہ کے بعد اگر جملہ یا شبہ جملہ آئے تو صفت بنتا ہے، جیسے۔
رَأَيْتُ رَجُلاً يَنْشُدُ المَدِيْح النبوی
اور اگر معرفہ کے بعد آئے تو حال بنتا ہے، جیسے۔
لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ أَنْتُمْ سُكٰرٰى [نساء،٤٣]
ترجمہ:
تم نشے کی حالات میں نماز کے قریب نہ جاؤ
🔹معرفہ کی طرف اگر کسی نکرہ کی اضافت ہو تو وہ خود معرفہ بن جاتا ہے، جیسے۔
کِتَابُ حَامِدٍ
اور نکرہ کی طرف اضافت ہو تو نکرہ مخصوص بن جاتا ہے، جیسے۔
کِتَابُ رَجُلٍ
🔹نکرہ کی تاکید معنوی درست نہیں جب کہ معرفہ کی درست ہے ، لہذا
جَاءَ رَجُلٌ نَفْسُهُ
درست نہیں مگر
جَاءَ الرَّجُلُ نَفْسُهُ
درست ہے۔
🔹نکرہ پر الف لام داخل ہو سکتا ہے، جیسے۔
رَجُلٌ سے الرَّجُلُ
مگر معرفہ پر داخل نہیں ہوسکتا، جیسے۔
عُمَرٌ سے العُمَرُ
درست نہیں۔
🔹من حرف جر زائدہ جو استغراق پر دلالت کرتا ہے، نکرہ پر تو داخل ہوسکتا ہے مگر معرفہ پر داخل نہیں ہوسکتا۔ لہذا
ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ [الفاطر،٣]
ترجمہ:
کیا اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق ہے۔؟ درست ہے مگر
ھَلْ مِنْ الخَالِقِ غَيْرُ اللّٰهِ
درست نہیں۔
🔹 لا براۓ نفی جنس اور لا مشابہ بلیس نکرہ پر داخل ہو سکتے ہیں مگر معرفہ پر نہیں لہذا
لَا عَاصِمَ الیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ [هود، ٤٣]
ترجمہ:
آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔
درست ہے۔لیکن
لَا عمرَ قَائما۔
درست نہیں۔
🔹نکرہ پر حرف نداء بلا واسطہ داخل ہو سکتا ہے، جیسے : یا رجل، معرف بالام پر داخل نہیں ہو سکتا۔ فاصلہ ضروری ہے ، لہذا
یا الرَّجُلُ
درست نہیں
، يا أَيُّهَا الرَّجُلُ
درست ہے۔
🔹نکرہ پر تنوین داخل ہو سکتی ہے، معرف باللام پر نہیں، لہذا رجل درست ہے مگر الرجلُ درست نہیں۔
🔹معرفہ یعنی متعین پر تعجب کیا جاسکتا ہے نکرہ (غیر متعین) پر نہیں، ہاں اگر نکرہ مخصوصہ ہو تو کیا جاسکتا ہے۔
شبہات کا ازالہ:
لَوْ کَانَ فِیْھِمَا آلِهَةٌ إلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتا فَسُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ العَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ [الانبیاء، ٢٢]
شبہ:
آلِهَةٌ
مستثنیٰ منہ ہے اور اسم جالت الله مستثنیٰ، استثنیٰ کے لیے ضروری ہے کہ مستثنیٰ منہ اگر مذکر ہو تو معرفہ ہو۔ اور یہاں
آلِهَةٌ
نکرہ ہے، پھر استثنیٰ کیوں کر درست ہوگا؟
ازالہ شبہ:
اس آیت میں الَّا استثنیٰ کے لیے ہے ہی نہیں، بلکہ غیر کے معنی میں ہے اور ما بعد اسم جلالت کی طرف مضاف ہوکر
آلِهَةٌ
کی صفت واقع ہے۔ اور جب إلا استثنیٰ کے لیے ہے ہی نہیں تو استثنیٰ کا قاعدہ بھی یہاں لازم نہیں ہوگا۔
ترکیب:
ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ
«ھَلْ» حرف استفہام «مِنْ» حرف جر زائدہ۔ «خَالِقٌ»۔ مبتداء کی قسم ثانی یا خبر مقدم۔ «غَیْرُ اللّٰهِ»۔بترکیب اضافی۔ خبر یا مبتداء مؤخر۔ مبتداء کی قسم ثانی اپنی خبر یا خبر مقدم اپنے مبتداء مؤخر سے مل کر۔ جملہ اسمیہ انشائیہ ہوا۔
[مأخوذ اذ جب نحو آپ کو الجھا دے،١٥٩]
1 Comments:
ماشاءاللہ
ایک تبصرہ شائع کریں