Headlines
Loading...
مشکل صیغوں کی صرفی تحقیق

مشکل صیغوں کی صرفی تحقیق

مشکل صیغوں کی صرفی تحقیق

أَرْجِهْ:

أَرْجِ صیغہ واحد مذکر امر حاضر معروف، ناقص، از باب اِفعال ہے، اس کے بعد واحد مذکر غائب کی ضمیر آنے کی وجہ سے، أَرْجِهْ ہو گیا، قران پاک میں اس کی بعد وَ اَخَاہُ آیا ہے، لہذا جِهِ وَ (فِعِلٌ) کی صورت پیدا ہو گئی جیسے اِبِلٌ ہے، اہل عرب کا قاعدہ ہے کہ اس وزن میں بھی درمیان والے حرف کو ساکن کر دیتے ہیں۔ لہذا ہاء کو ساکن کیا تو أَرْجِهْ وَ أَخَاهُ ہو گیا۔

عَصَوَّ (عَصَوْا وَ):

عَصَوْا صیغہ جمع مذکر غائب ماضی معروف، ناقص واوی، از باب نَصَرَ یَنْصُرُ جیسے۔ رَمَوْا ہے اس کے بعد واو عطف آ گیا، قرآن مجید میں بِمَا عَصَوْا وَ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ہے اور قاعدہ یہ ہے، واوِ غیر مدہ کا واوِ عطف میں ادغام کرتے ہیں، اس لیۓ عَصَوَّ کَانُوا یَعْتَدُوْنَ ہو گیا۔

فَقَدْ رَأَیْتُمُوْہُ:

رَأَیْتُمْ بر وزن فَعَلْتُمْ صیغہ جمع مذکر حاضر، فول ماضی مثبت معروف، از باب فَتَحَ یَفْتَحُ مہموز العین و ناقص یائی ہے، شروع میں فاء برائے تعقیب اور قد تحقیق کے لیے آیا ہے۔

جب کہ آخر میں هُ ضمیر ممصوب لائی گئی تو تُمْ پر واو کا اضافہ کر دیا، کیونکہ قاعدہ یہ ہے، کہ کُمْ، هُمْ، تُمْ، کے بعد جب ضمیر لانا ہو، تو میم کے بعد واو کا اضافہ کرتے ہیں۔ اور میم کو ضمہ دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید سے چند مثالیں،

قُلْتُمُوْهُمْ، أَكَلْتُمُوْهُمْ، أَ بَشَّرْتُمُوْنِىْ، طَلَّقْتُمُوْهُنَّ، بلکہ واحد مؤنث حاضر کے صیغے میں ضمیر کا اضافہ کرتے وقت تاۓ مکسورہ کے بعد یاء ساکن کا اضافہ کرتے ہیں۔

جیسے صحیح بخاری میں ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول میں آیا ہے۔ لَوْ قَرَأْتِیْهِ لَوَجَدْتِيْهِ

اَلدَّاعِ:

یہ اسم فاعل دَاعِیْ ہے، اور قاعدہ یہ ہے کہ اسم معرف باللام کے آخر سے بعض اوقات یاء گر جاتی ہے، لہذا یہاں بھی گر گئی اور اَلدَّاعِ ہو گیا الجَوَارِیْ میں بھی یہی تحقیق ہے،

قَرْنَ:

بعض مفسرین کے نزدیک یہ اِقْرَرْنَ تھا، اور قاعدہ یہ ہے، کہ جب دو حروف ایک جنس کے جمع ہو جائیں تو بعض اوقات ان میں سے ایک کو حذف کر دیتے ہیں۔ اور بعض اوقات پہلے والے حرف کی حرکت ما قبل کو دے دیتے ہیں۔

تو یہاں پر دوسری والی صورت اختیار کرتے ہوئے پہلے راء کی حرکت کاف کو دے کر ایک راء کو اجتماع ساکنین کی وجہ سے حذف کر دیا اب ہمزہ وصلیہ کی ضرورت نہ رہی تو اسے بھی حذف کر دیا تو یہ قَرْنَ ہو گیا

یَخِصِّمُوْنَ:

صیغہ جمع مذکر غائب فعل مضارع مثبت معروف، صحیح از باب افتعال ہے، اصل میں یہ یَخْتَصِمُوْنَ تھا، اور قاعدہ یہ ہے کہ اگر باب افتعال کا عین کلمہ ص ہو تو تاۓ افتعال کو عین کلمہ کی جنس سے بدلنا جائز ہے، لیکن پھر ادغام کرنا واجب ہو جاۓ گا،

تو اس قاعدے کی رعایت کرتے ہوئے تاء کو صاد سے بدلا اور پھر پہلے صاد کی حرکت ما قبل کی طرف نقل کرکے صاد کا صاد میں ادغام کر دیا تو یہ یَخَصِّمُوْنَ ہو گیا، پھر خاء کو کسرہ دے دیا جیسا کہ عام قراءت ہے۔
نوٹ: تفسیر بیضاوی میں اس آیت مبارکہ مَا یَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَ هُمْ یَخِصِّمُوْنَ کے تحت لکھا ہے، کہ ابن کثیر، روش اور ھشام ان حضرات نے خاء کو فتح کے ساتھ بھی پڑھا ہے،

مِتْنَا:

صیغہ جمع متکلم فعل ماضی مثبت معروف، جیسے خِفْنَا یہاں اشقال یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس کا مضارع مضموم العین استعمال ہوا ہے،جیسے یَمُوْتُ اور یَمُوْتُوْن لہذا یہ نَصَرَ یَنْصُرُ سے مُتْنَا آنا چاہیے تھا،

اس کا جواب یہ ہے کہ بقول مفسرین یہ باب نَصَرَ یَنْصُرُ سے بھی آتا ہے، اور سَمِعَ یَسْمَعُ سے بھی جیسے مَاتَ یَمُوْتُ اور مَاتَ یَمَاتُ (قَالَ یَقُوْلُ اور خَافَ یَخَافُ کے وزن پر) قرآن مجید میں اس کی ماضی سَمِعَ یَسْمَعُ سے اور مضارع نَصَرَ یَنْصُرُ سے مستعمل ہے۔

1 Comments:

اسلام کہا...

سورۃ المؤمنون کی صرفی تحلیل