Headlines
Loading...
ملائکہ کی لغوی و صرفی تحقیق

ملائکہ کی لغوی و صرفی تحقیق

ملائكہ کی لغوی و صرفی تحقیق

لغوی تحقیق: اَلْمَلَائِكَةُ یہ جمع ہے مَلَكٌ کی مَلَكٌ سہ اقسام،اسم جامد شش اقسام، ثلاثی مجرد ہفت اقسام، صحیح مادہ، م، ل، ك، غیر معلل

مَلَائِكَة سے متعلق چند اہم باتیں ذکر کی جاتی ہیں : ملائکة یہ ملك کی جمع ہے اس ملك سے متعلق مختلف اقوال ہیں جس کی تعداد چھ ہیں اور یہ اختلاف اس سلسلہ میں ہے کہ ملك کی میم اصلی ہے یا زائد جو لوگ میم کے اصلی ہونے کے قائل ہیں پھر ان میں آپس میں اختلاف ہے

اَلْقَوْلُ اَلَاَوَّلُ:

بعض کا کہنا ہے کہ مَلَكٌ بروزن فَعَلٌ ہے جو کہ متشق ہے الملْك سے اور اس کی جمع ملائكة بروزن فعائلة لانا شاذ ہے۔

اَلْقَوْلُ اَلَثَّانِیْ:

بعض کا کہنا ہے کہ اس کی اصل مَلْأَكٌ ہے اس میں ہمزہ زائدہ ہے جس طرح شَمْأَل میں ہمزہ زائدہ ہے پھر یہ ہوا کہ ہمزہ کی حرکت لام کو دے دیا اور ہمزہ کو تخفیفا حذف کر دیا تو مَلَكٌ ہوگیا

اور مَلَكٌ کی جمع ملائکة اسی اصل زائدہ یعنی مَلْأَكٌ کے مطابق آیا ہے۔ یہ دو قول ہوۓ ان لوگوں کے جو میم کے اصل ہونے کے قائل ہیں۔ جو حضرات میم کے زائد ہونے کے قائل ہیں ان میں بھی آپس میں اختلاف ہے۔

اَلْقَوْلُ اَلَثَّالِثُ:

بعض کا کہنا یے کہ یہ أَلَكَ بمعنی أَرْسَلَ سے مشتق ہے اس کا فا کلمہ ہمزہ اور عین کلمہ لام ہے اور مَلَكٌ کی اصل مَأْلَكٌ ہے پھر اس میں قلب مکانی ہوا یوں کہ عین کلمہ کو فا کلمہ کی جگہ اور فا کلمہ کو عین کلمہ کی جگہ لے گۓ تو یہ مَلْأَكٌ بروزن معفل ہوگیا پھر ہمزہ کی حرکت لام کو دیکر ہمزہ کو تخفیفا حذف کر دیا تو مَلَكٌ ہوگیا برون مَعَلٌ فا کلمہ کے حذف کے ساتھ۔

اَلْقَوْلُ اَلَرَّبِعُ:

اور قول رابع بعض کا کہنا ہے کہ یہ لَأَكَ بمعنی أَرْسَلَ سے مشتق ہے جس کا فا کلمہ لام اور عین کلمہ ہمزہ ہے مَلَكٌ کی اصل مَلْأَكٌ ہے پھر یہ ہوا کہ ہمزہ کی حرکت لام کو دیکر تخفیفا ہمزہ کو حذف کر دیا تو

مَلَكٌ ہوگیا پھر مَلَكٌ کی جمع ملائكة اصل مَلْأَكٌ اور مَأْلَكٌ کے مطابق لائی گئی تو ان دونوں قولوں کے مطابق جمع میں ہمزہ واپس لایا گیا پس قول اول کے مطابق ملائكة کا وزن مَعَافِلَة ہے کیوں اس میں قلب مکانی ہوا تھا اور قول ثانی کے مطابق ملائكة کا وزن مَفَاعِلَة ہے۔

اَلْقَوْلُ اَلَخَامِسُ:

ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ مَلَكٌ: لَاكَه یَلُوْكُه بمعنی ادارہ یدیرہ سے مشتق ہے لھذا مَلَكٌ کی اصل مَلْوَكٌ ہے اب اجوف کے قاعدہ کے مطابق واؤ کی حرکت لام کو دیکر واؤ کو الف سے بدل دیا تو مَلَاكٌ ہوگیا جیسے مَقَامٌ پھر الف کو تخفیفا حذف کر دیا تو تو مَلَكٌ ہوگیا بروزن مَفَلٌ عین کلمہ کے حذف کے ساتھ تو اس تقدیر پر ملائكة کی اصل ملاوکة ہوئی پھر واؤ کو ہمزہ سے بدل دیا تو ملائكة ہوگیا

یہاں واؤ کو ہمزہ سے بدلنا شاذ ہے کیوں کہ الف مفاعل کے بعد واؤ اور یا کو ہمزہ بدلنے کی شرط یہ ہے کہ وہ زائدہ ہو اور یہاں پر واؤ زائدہ نہیں بلکہ حروف اصلیہ میں سے ہے کیوں کہ قول خامس کے مطابق یہ ل و ك مادہ سے مشتق ہے

اَلْقَوْلُ اَلَسَّادِسُ:

چھٹا اور آخری قول یہ ہے کہ نضر بن شمیل نے فرمایا کہ : عرب کے ہاں اس کا کوئی مشتق منہ ہی نہیں اور لفظ ملائكة میں ھا یعنی تا جو وقف میں ھا ہو جاتی ہے جمع کی تانیث کیلیے ہے جیسے صلادمة میں تانیث کیلیے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مبالغہ کیلیے ہے جیسے علامہ وغیرہ میں۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب۔