Headlines
Loading...
استاذ کا حق اور ادب

استاذ کا حق اور ادب

استاذ صاحب کا حق اور ادب

ہمارے پیارے دین اسلام نے مختلف الجہات لوگوں کے حق بیان فرمائے ہیں ، مثلاً پڑوسی ، والدین ، دوست و احباب اور رشتے دار وغیرہ۔ انھیں میں سر فہرست استاذ کا ذکر آتا ہے

جن کی تعظیم و تکریم کا دین اسلام نے حکم دیا حتی کہ باقاعدہ طلبہ اور اساتذہ کے حقوق پر علماے دین نے کتابیں مرتب فرمائی ہیں۔ تاکہ قاری ان کتب کو پڑھ کر اساتذہ کے حقوق پر مطلع ہو کر عمل پیرا ہو۔

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : لَيْسَ منا وَلم يرحم صَغِيرنَا من لم يُوَقِّرْ كَبِيرنَا

ترجمہ: جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم و توقیر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔

چھوٹا ہو یا بڑا ہمیں ہر ایک سے ادب و احترام کے ساتھ پیش آنا ہے۔ یقیناً دینی استاذ بھی ان لوگوں میں سے جو علم و عمل میں ہم سے بلند رتبہ ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ ادب سے پیش آنا، ان کے حقوق ادا کرنا دین اسلام کی تعلیمات میں داخل ہے۔

علامہ مرتضی زبیدی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جس نے اساتذہ کے حقوق پورا کرنے میں جان بوجھ کر یا غلفت سے کمی کی وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوگا۔ (حِكْمَةُ الإشْرَاقِ إلى كِتَابِ الآفَاقِ، ص:۱۱۰، مطبعة المدني - القاهرة)

بزرگانِ دین فرماتے ہیں : جو اپنے استاذ کو نہیں پہچانتا وہ کامیاب نہیں ہوگا۔ (تَدْرِیْبُ الرَّاوِی، ص:۳۷۰)

امام بدر الدین بن جماعہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : طالب علم اپنے ستاذ کے حقوق کو پہچانے، کبھی ان کی فضیلت کو فراموش نہ کرے۔

امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب میں کسی سے حدیث سنتا ہوں تو زندگی بھر اس کا غلام ہو جاتا ہوں۔ (تَذْكِرَةُ السَّامِعِ وَالمُتَكَلِّمِ، ص:۹۹، دار الكتب العلمية)

استاذ کا حق پہنچاننے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تعظیم و تکریم کی جائے۔ ان کے ساتھ کوئی بھی ایسا انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے ان کو تکلیف ہو۔ ان کا علمی مقام و مرتبہ ہمارے پیش نظر ہونا چاہیے۔

بعض طلبہ جو اپنے اساتذہ کی اہمیت و عظمت کو پس پشت ڈال کر ایسے توہین آمیز جملے کستے ہیں جو ان کی آئندہ زندگی کو تباہ و برباد کردیتے ہیں۔

کئی ایسے لوگ آپ کو ملیں گے جو اساتذہ کرام کی توہین کے سبب علم سے دور ہو گئے۔ بظاہر اگر معلومات حاصل بھی ہوئی مگر علم نافع نہ ملا۔

ہمارے اسلاف کرام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ اپنے اساتذہ کرام کی تعظیم و توقیر کریں حتی کہ آپ کتب اصول حدیث کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں باقاعدہ اساتذہ کے آداب بیان فرمائے گئے تاکہ طلبہ اس پر عمل پیرا ہوں۔

حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : إن من السنة، أن توقر العالم. عالم کی عزت و احترام کرنا سنت ہے۔ (جَامِعُ بَيَانِ العِلْمِ وَفَضْلِهِ، ج:۱، ص:۴۵۹، دار ابن الجوزي - السعودية)

استاذ کے ادب کے متعلق امام ابن جماعہ رحمۃ اللہ علیہ نے تو یہاں تک فرمایا کہ طالب علم استاذ کی موجودگی میں کسی دیوار پر ٹیک نہ لگائے، حتی کہ ایک پہلو پر یا ہاتھ پر ٹیک لگانے سے بھی منع فرمایا۔ (تذكرة السامعِ والمتكلم، ص:۹۸، دار الكتب العلمية)

لہذا کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے استاذہ سے ادب و احترام کے ساتھ پیش آئیں ، ان کی ہر حکم کی تعلیم کریں اور ہر اس کام سے بچیں جو ان کی گستاخی یا ناراضگی کا سبب بنے۔

كتبه: عمران رضا عطاری مدنی

تخصص فی الحدیث ناگپور

8 ربیع الثانی/ 1445