مَعْنى و تَعَالٍ کی تعلیل و تحقیق
معنی کی تحقیق:
معنی کے بارے میں تین اقوال ہیں۔ ١. اس کو اسم مفعول بروزن (مَعْنُوْيٌ) مانا جاۓ۔ ٢. اس کو اسم ظرف بروزن (مَعْنَيٌ) مانا جاۓ۔٣. اس کو مصدر میمی بروزن (مَعْنَيٌ) مانا جاۓ۔
معنی یہ اسم مقصور ہے۔ اور الف لام ہونے کی صورت میں تو اس کا اسم مقصور ہونا ظاہر ہی ہے۔ اور اگر اس پر الف لام نہ ہو بلکہ تنوین کی صورت میں ہو تو۔ کہا جاۓگا کہ یہاں پر الف مقصورہ تقدیری طور پر ہے۔
اعتراض: اگر کوئی یہ کہے کہ آپ اس کو اسم مقصور کہتے ہیں۔ یعنی اس کے آخر میں الف مقصورہ ہے۔ اور الف مقصورہ یہ ایک ایسا سبب ہے جو کسی بھی اسم کو غیر منصرف کرنے کے لۓ کافی ہے۔ تو آپ کے حساب سے معنی کو غیر منصرف ہونا چاہئے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ معنی تو منصرف ہے۔
جواب: اس الف مقصورہ و ممدودہ کو دو سبب کے قائم مقام مانا جاۓگا جو الف مقصورہ و ممدودہ زائدہ ہوں اصلی نہ ہوں۔ جیسے۔علماء، صحراء، وغیرہ۔اور اگر یہ اصلی ہوں تو ان کو دو سبب کے قائم مقام نہیں مانا جاۓگا اور نہ ہی ان کی وجہ سے وہ اسم غیر منصرف ہوگا جیسے۔ سماء، معنی، وغیرہ۔
اسم ظرف یا مصدر میمی مان کر تعلیل:
یہ اصل میں «مَعْنَيٌ» تھا اس کو آسانی کے لۓ اس طرح لکھ لیتے ہیں۔ مَعْنَيُنْ اب قاعدہ ہے واو یا یاء متحرک ما قبل مفتوح ہو تو واو یا یاء کو الف سے بدلنا واجب ہے۔ (نصاب الصرف۔٢٢٦) تو یاء متحرک ما قبل مفتوح ہونے کی وجہ سے یاء کو الف سے بدل دیا تو یہ«مَعْنَانْ» ہو گیا اور اب اجتماع ساکنین کی وجہ سے الف کو گرا دیا تو یہ «مَعْنَنْ» ہو گیا جس کو اس طرح لکھتے ہیں۔ مَعْنیً اور الف لام ہو تو المَعْنی لکھتے ہیں۔
اسم مفعول مان کر تعلیل:
یہ اصل میں۔ «مَعْنُوْيٌ» تھا۔ قاعدہ یہ ہے۔کہ ہر وہ واو جو دوسرے حرف سے بدلی ہوئی نہ ہواگر کسی غیر ملحق کلمہ میں یاء کے ساتھ جمع ہو جاۓ اور ان میں پہلا حرف۔ واو، یا یاء، ساکن ہو تو واو کو یاء سے بدل کر یاء کا یاء میں ادغام کرنا واجب ہے۔[نصاب الصرف۔ ٢٣٠]
تو واو کو یاء سے بدل کر یاء کا یاء میں ادغام کیا تو یہ «مَعْنُيٌّ» ہو گیا۔پھر یاء کی مناسبت سے ما قبل کے ضمے کو کسرہ سے بدل دیا۔ اور کثرت استعمال کی وجہ سے خلاف قیاس ایک یاء کو گرا دیا۔ اور خلاف قیاس ہی ما قبل کے کسرہ کو فتحہ سے بدل دیا۔ تو یہ۔«مَعْنَيٌ» ہو گیا اور بقیہ تعلیل اسی طرح ہوگی جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔
تعالٍ کی تحقیق: یہ باب تفاعل کا مصدر ہے۔ ثلاثی مزید فیہ ناقص واوی مادہ۔،ع،ل،و،
تعالٍ کی تعلیل: یہ اصل میں «تعَالُوٌ» تھا۔ قاعدہ۔ہر وہ واو جو اسم معرب کے لام کلمہ میں۔ ضمہ کے بعد واقع ہو۔اسے یاء سے بدل کر ما قبل ضمہ کو کسرہ سے بدل دینا واجب ہے۔ [نصاب الصرف۔٢٤٨] تو واو کو یاء سے بدلا اور ما قبل کے ضمہ کو کسرہ سے بدلا تو یہ «تَعَالِيٌ» ہو گیا پھر یاء پر ضمہ ثقیل ہونے کی وجہ سے گر گیا اور یاء اجتماء ساکنین کی وجہ سے حذف ہو گئی تو یہ تَعالٍ ہو گیا۔
[مآخوذ از نصاب الصرف، شرح جامی، سوال باصولی،]
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں