فاء کے استعمال کی صورتیں :
١. فاے عاطفہ مبنی بر فتح :
یہ تین چیزوں کا فائدہ دیتا ہے۔ اشتراک، ترکیب، اور تعقیب بلا تراخی ( فورا بعد میں آنا) جیسے۔ جاء عبید و فعمیر۔(عبید آیا پھر فورا عمیر )
٢. فاے استینافیہ مبنی بر فتح :
یہ اس بات کا فائدہ دیتا ہے۔ کہ ما بعد جملے کا اعراب میں ما قبل سے کوئی تعلق نہیں۔ جیسے۔
فلمّا أٰتٰهما صَالِحاً جَعَلا لهُ شُرَكآءَ فِيْمآ اٰتٰهُما فتعٰلى اللّٰهُ عمّا يُشرِكُونْ [ سورة الاعراف: ١٩٠]
ترجمہ: پھر جب اس نے انہیں صحیح سالم بچہ عطا فرما دیا تو انہوں نے اس کی عطا میں شریک ٹھرا دیے تو اللہ ان کے شریکوں سے بلند و بالا ہے۔
تو اس مثال میں.[ فتعٰلى اللّٰهُ عمّا يُشرِكُونْ ] کا فاء استینافیہ ہے۔
٣. فاے جزائیہ مبنی بر فتح :
جزاء کو شرط سے جوڑنے کے لۓ آتا ہے۔ جیسے۔(ان تنصرْ وسیماً فهو ليس بضاربك) اگر تو وسیم کی مدد کرے گا تو وہ تجھے نہیں مارے گا۔
٤. فاے سببیہ مبنی بر فتح :
یہ فاے عاطفہ ہی ہوتا ہے۔ البتہ اس کا ما قبل ما بعد کا سبب ہوتا ہے۔ اس کے لۓ ضروری ہے۔ اس کا ما بعد فعل مضارع منصوب۔ ب"ان" مقدرہ ہو۔ اور اس کے ما قبل میں نو چیجوں ( امر، دعا، نہی، نفی، استفہام، تمنی، ترجی، عرض، اور تخصیص، ) میں سے کوئی ایک ہو۔ جیسے : ( قم فاقومَ ) تو کھڑا ہو کہ میں کھڑا ہو جاوں۔
٥. فاے تعلیلیہ مبنی بر فتح :
ما قبل کی علت اور وجہ بیان کرتا ہے۔ جیسے۔ (ساعدْ حامداً فاِنه صَديقُك) حامد کی مدد کر کیوں کہ وہ تیرا دوست ہے۔
٦. فاے زائدہ مبنی بر فتح :
جیسے۔(اعطيتُ عارفاً درهماً فَقَطْ) میں نے عارف کو صرف ایک درہم دیا۔ یہ اس صورت میں ہے۔ جب کی قط کو حسب کے معنی میں مانا جاۓ۔اور اگر اس کو اسم فعل بمعنی انته مانا جاۓ تو پھر فاء جزائیہ ہوگا۔ اور اس کی شرط اذا کان الامر کذا مقدر ہوگی۔
٧. فاے فعلیہ :
یعنی وفیٰ یفی سے امر حاضر معروف کا صیغہ "فِ" (تو پورا کر)
٨. فاے اصلیہ :
یعنی صرفی حضرات نے قلمات کے اوزان کی پہچان کے لۓ جن تین حروف(ف،ع،ل،) کا انتخاب کیا ہے ان میں سے پہلا حرف۔
ترکیب :
فلمّا أٰتٰهما صَالِحاً جَعَلا لهُ شُرَكآءَ فِيْمآ اٰتٰهُما فتعٰلى اللّٰهُ عمّا يُشرِكُونْ [ سورة الاعراف: ١٩٠]
«فاء» عاطفہ «لما» ظرف زمان متضمن معنی شرط مفعول فیہ مقدم «آتی» فعل، اس میں «هو» ضمیر پوسیدہ فاعل «ھما» ضمیر مفعول بہ «صالحا» صفت، موصوف محذوف «ولدا» کی موصوف اپنی صفت سے مل کر مفعول بہ ثانی۔ فعل اپنے فاعل اور دونوں مفعول بہ اور مفعول فیہ مقدم سے مل کر جملہ فعلیہ ہو کر شرط۔
«جعلا» فعل «الف» ضمیر بارز فاعل «لہ» بترکیب جار مجرور ظرف لغو «شرکاء» موصوف «فیما» "فی" حرف جر "ما "موصول حرفی «اتی» فعل مع فاعل«ھما» مفعول بہ، فعل اپ ے فاعل اور مفعول بہ سے مل کو جملہ فعلیہ خبریہ ہو کر صلہ۔ موصول حوفی اپنے صلہ سے مل کر مجرور، جار مجرور سے مل کو ظرف مستقر « ثابتة» اسم فاعل کا اس میں "ضمیر" پوشیدہ فاعل اسم فاعل اپنے فاعل اور ظرف مستقر سے مل کر صفت، موصوف اپنی صفت سے مل کر مفعول بہ، فعل اپنے فاعل اور مفعول بہ سے مل کر جملہ فعلیہ ہو کر جزاء، شرط اپنی جزاء سے مل کر جملہ شرطیہ ہوا۔
"فتعلیٰ" « فاء» مستانفہ «تعالیٰ» فعل «الله» اسم جلالت فاعل، «عما» "عن" حرف جر "ما" موصول حرفی، «یشرکون» فعل اس میں «و» ضمیر بارز فاعل، فعل اپنے فاعل سے مل کر جملہ فعلیہ خبریہ ہو کر صلہ، موصول حرفی اپنے صلہ سے مل کو مجرور، جار مجرور سے مل کر ظرف لغو، «تعالیٰ» فعل کا فعل اپنے فاعل اور ظرف لغو اے مل کر جملہ فعلیہ خبریہ مستانفہ ہوا۔
حوالہ: [جب نحو آپ کو الجھا دے صفحہ۔١١]
1 Comments:
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مجھے معلوم کرنا تھا کہ فا تعرفیہ کی ترکیب کس طرح ہو گی؟
ایک تبصرہ شائع کریں