صفت اور حال میں فرق
فرق:
صفت کا تعلق موصوف سے اس کے عامل کے تعلق سے قبل ہوتا ہے جب کہ ذو الحال کا تعلق ذوالحال سے عامل کے تعلق کے وقت ہوتا ہے جیسے۔
جَاءَ الرَّجُلُ العَالِمُ
عالم شخص آیا۔
کا مطلب ہوگا کہ علم کا تعلق
الرَّجُلُ
سے مجيئة کے پہلے سے ہے جب کے۔حال میں فی الحال کو بتانا ہوتا ہے، جیسے۔
جَاءَ الرَّجُلُ ضَاحِكاً
آدمی ہنستے ہوۓ آیا۔ اس مثال میں ضِحك کاتعلق الرَّجُلُ سے مجیئت کے وقت ہے۔
🔹صفت کے دو موصوف (جن کا اعراب الگ الگ ہو) نہیں ہوسکتے، جب کہ حال کے دو ذوالحال ہو سکتے ہیں، یعنی فاعل و مفعول۔ لہذا
نَصَرَ سَلِيْمٌ قَاسِماً رَاکِبَیْنِ
درست ہے۔مگر
نَصَرَ سَلِيْمٌ قَاسِماً العَالِمَيْنِ
درست نہیں ۔
در اصل صفت اعراب میں موصوف کے مطابق ہوتی ہے، اب اگر دو موصوف ( فاعل و مفعول ) ہوں تو کسی ایک کی مطابقت سے دوسرے موصوف کی مطابقت نہیں ہو پائے گی اور حال کی اعراب میں ذو الحال سے مطابقت ہوتی ہی نہیں۔
🔹 صفت کا موصوف سے اعراب، تعریف و تنکیر میں مطابق ہونا ضروری ہے جب کہ حال ہمیشہ منصوب اور نکرہ ہوگا ۔ صفت کی مثال:
جَاءَ الرَّجُلُ العَالِمُ
حال کی مثال۔
جَاءَ الرَّجُلُ رَاکِباً
🔹 حال ذو الحال پر مقدم ہوسکتا ہے جب کہ صفت موصوف پر نہیں ۔ لہذا
جَاءَ رَاکِباً الرَّجُلُ
درست ہے، مگر
جَاءَ العَالِمُ الرَّجُلُ
بترکیب توصیفی درست نہیں۔
🔹حال ضمیر کا بھی ہو سکتا ہے ، جیسے ۔
مَرَرْتُ بِهِ رَاكِباً
رَاكِباً ضمیر مجرور متصل سے حال ہے۔ جب کہ صفت ضمیر کی نہیں ہو سکتی ، کیوں کہ ضمیر موصوف نہیں بن سکتی ۔ لہذا
مَرَرْتُ بِهِ العَالِمُ
درست نہیں۔
🔹صفت میں عائد کا ہر حال میں ہونا ضروری ہے، جیسے۔
جَاءَ الرَّجُلُ العَالِمُ
میں العَالِمُ میں ضمیر عائد ہے، جب کہ حال سے پہلے اگر واو آجائے تو عائد ضروری نہیں، جیسے۔
رَأَيْتُ القَمَرَ وَ النَّهَار مُوْجُوُد
میں نے چاند دیکھا اس حال میں کہ دن موجود تھا۔
صفت کی دو قسمیں ہیں۔
١۔ صفت سببی اور ٢۔ صفت حقیقی۔
🔹صفت سببی پانچ چیزوں میں موصوف کے مطابق ہوتی ہے۔۔ اعراب۔یعنی رفع نصب۔جر۔اور تعریف۔و تنکیر۔
🔹 صفت حقیقی۔دس چیزوں میں موصوف کے مطابق ہوتی ہے۔ رفع،نصب،جر، تعریف، وتنکیر، تذکیر،و، تآنیث، واحد، تثنیہ، جمع،
[مأخوذ اذ جب نحو آپ کو الجھا دے،١٤١]
1 Comments:
ما شاءاللہ عزوجل
ایک تبصرہ شائع کریں