Headlines
Loading...
اسم فاعل و اسم مفعول کا بیان

اسم فاعل و اسم مفعول کا بیان

             🌹🌺 اسم فاعل کا بیان🌺🌹


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تعریف۔۔ جو اسم مشتق ایسی ذات پر دلالت کرے جس کے ساتھ فعل قائم ہو۔ اسے اسم فاعل کہتے ہیں۔ جیسے۔ ( مکرم )

اسم فاعل کا عمل۔۔ 
اسم فاعل فعل معروف جیسا  عمل  کرتا ہے۔  یعنی اپنے فاعل کو رفع۔اور چھ اسماء کو نصب دیتا ہے۔(مفعول مطلق،مفعول
 فیہ۔ مفعول معہ، مفعول لہ، حال، تمیز، اور فعل متعدی کااسم فاعل مفعول بہ کو بھی نصب دیتا ہے۔جیسے(أ ناصرٌ زید عمراً)

اسم فاعل کے عمل کی شرطیں۔ 1) اسم فاعل پر الف لام نہ ہو
تو اس کے عمل کے لۓ شرط یہ ہے کہ ہی حال یا استقبال کے معنی میں ہو۔ اور اس سے پہلے۔  مبتدا،  موصوف،  ذوالحال، 
نفی، یا استفہام ہو۔ جیسے۔۔( زيد قائمٌ ابوه) 2.) اور اگر اسم فاعل پر الف لام ہو۔ تو اس کے عمل کے لۓ کوئی شرط نہیں۔

اسم فاعل کے اہم قواعد۔👇👇👇👇👇
_______________________________________________
1.) ثلاثی مجرد سے اسم فاعل (فاعلٌ) کے وزن پر آتا ہے۔ ( فاتحٌ۔ ناصرٌ ) غیر ثلاثی مجرد سے مضارع کے وزن پر آتا ہے۔ لیکن اس میں علامت مضارع کی جگہ میم مضموم آتی ہے۔ سورما قبل آخر مکسور ہوتا ہے۔ جیسے۔۔ مکرمٌ 

2.)  اسم فاعل کے بعد ایسا اسم ہو۔ جو فاعل بن سکتا ہو۔ تو وہی اس کا فاعل بنےگا جیسے۔۔ أ ناصرٌ زید۔۔ ورنہ اس میں موجود ضمیر کو اس کا فاعل بنائیں گے۔ 

3.) فاعل اسم ظاہر ہو تو اسم فاعل واحد ہی آۓگا۔ جیسے۔(أ قائم ٌ  ولادانِ ) اور اگر فاعل اسم ضمیر ہو۔ تو اسم فاعل اس کے مرجع کے مطابق آۓگا۔ :  (الرجال ناصرون )

4).  اسم فاعل تذکیر و تانیث میں اپنے فاعل کے مطابق ہوگا۔
جیسے۔۔ هذا ولد عالم ابوه. 

5). فاعل اگر مؤنث لفظی، اسم جمع، یا جمع مکسر، ہو تو اسم فاعل مذکر و مؤنث دونوں طرح آ سکتا ہے۔ ( أ طالعٌ شمسٌ، ما ناصرٌ قومٌ، أ ذاھبٌ رجالٌ،)

اسم مبالغہ کے ۔۔۔۔۔👇👇👇👇🌹

=======================================
تعریف۔ جو اسم مشتق مبالغہ پر دلالت کرے اسے اسم مبالغہ، کہتے ہیں۔ جیسے۔۔ أکّال، فعولٌ، وغیرہ۔۔ 

1). اسم مبالغہ مختلف اوزان پر آتا ہے۔ لیکن یہ اب سماعی ہوتے ہیں۔ 

2). اسم مبالغہ بھی ذکر کردہ شرائط کے ساتھ اسم فاعل کی طرح عمل کرتا ہے۔ جیسے۔ زید فطنٌ ابنہُ، 

اسم تفضیل کا بیان۔۔۔۔🌹👇👇👇👇

تعریف۔۔ جو اسم مشتق ایسی ذات پر دلالت کرے جس میں کسی کے مقابلے میں مصدری معنی کی زیادتی ہو۔ اسے اسم تفضیل کہتے ہیں۔ جیسے۔۔(العلمُ انفعُ من المال،)جس ذات میں معنی کی زیادتی ہو اسےمفضل اور جس کےمقابلےمیں زیادتی
ہو اسے مفضل علیہ کہتے ہیں۔ 

اسم تفضیل کا استعمال۔۔۔ 
اسم تفضیل کا استعمال تین طریقوں میں سے کسی بھی ایک طریقے سے ہوتا ہے۔ 
1). أل کے ساتھ۔۔جاء زیدٌ الافضلُ2). من کے ساتھ۔۔زیدٌ افضلُ من خالدٍ۔ 3). اضافت کے ساتھ۔۔ النبی افضلُ الخلقِ۔۔ 

قواعد و فوائد۔۔۔
1). جو اسم تفضیل الف لام کے ساتھ استعمال ہو  تو  اس کا مذکر اور مؤنث ہونے میں۔ اور واحد، تثنیہ، اور جمع ہونے میں
موصوف ماقبل کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ جیسے۔۔ جاء زیدٌ الافضلُ۔۔ جاء الزیدان الافضلان۔۔۔
2). جو اسم تفضیل من کے ساتھ استعمال ہو وہ ہر حال میں واحد مذکر ہی آۓ گا۔ جیسے۔۔ الزیدانِ اطولُ من خالدٍ۔۔

3). جو اسم تفضیل اضافت کے ساتھ استعمال ہو وہ واحد مذکر اور موصوف کے مطابق دونوں طرح آ سکتا ہے۔ جیسے۔ 
الانبیاء افضل الخلق۔۔

4). ثلاثی مجرد فعل سے اسم تفضیل۔ مذکر کے لۓ افعلُ اور مؤنث کے لۓ فعلیٰ کے وزن پر آتا ہے۔جبکہ اس میں رنگ حلیہ یا ظاہری عیب والا معنی نہ ہو۔ جیسے۔۔ زیدٌ ابلدُ من خالدٍ۔۔

5). غیر ثلاثی مجرد فعل یا وہ ثلاثی مجرد فعل جس میں رنگ حلیہ اور عیب کا معنی ہو۔ اس سے اسم تفضیل افْعَلُ یا 
فُعلیٰ کے وزن پر نہیں بن سکتا۔ لہذا اس طرح کے فعل سے اسم تفضیل بنانے کے لۓ أشدُّ، اَکثَرُ، وغیرہ لاتے ہیں۔ پھر اس فعل کا مصدر بطور تمیز منصوب ذکر کرتے ہیں۔ جیسے۔خالدٌ
اکثرُ اکراماً۔ 
6). خَیرٌٌ، شرٌّ، اور حبّ، اسم تفضیل ہیں۔ کیونکہ یہ اصل میں۔
أخیرُ، أشرُّ، اور أحبُّ، ہیں۔ 

7). اگر مفضل علیہ معلوم ہو تو اسے حذف کر دینا بھی جائز ہے۔ جیسے۔۔ اللہ اکبر من کل شیئٍ،